جب سے ہوش سنبھالا.. سیاستدانوں کے رنگین خوابوں کے راگ, روٹی , کپڑا اورمکان جیسے نعروں نے آ لیا.. پھر ذاتی مفاد کی روش ڈالی... جس کی وجی سے معاشرہ مادیت کا شکار ہو کر انتشار میں تبدیل ہو گیا.. ایک دوسرے کے دکھ درد سانجھے نہ رہے..سیاستدانوں کی پشت پناہی نے جوان نسل کو نہ صرف خراب کیا بلکہ تباہی کے داہنے پر کھڑا کر دیا... قیام پاکستان کے بعد بجاے متحد ہونے کے مزید غلامی اور لاچارگی میں تبدیل کر دیا گیا... جو لوگ پاکستان کے لیے کٹ مررہے تھے وہ آج بھی کٹ رہے ہیں .. قوم کے ٹیکس پر کام کرنے ملازمین بجاے خدمت گزار اور معاونت کے حاکم بنا دیا گیا..ان کے پاس عام شہری جب جاتا ہے اسے دشمن کی طرح ٹریٹ کیا جاتا.. المختصر یہ کہ سیاسی قوتوں کے پاس صرف ذاتی مفادات کے علاوہ کچھ نہیں... اگر یہ اس قابل ہوتے تو پاکستان اس حالت کو کبھی نہ پہنچتا... ہاں فوجی قیادتیں بھی آیں لیکن وقت ثابت کرتا ہے کہ ملک اورعوام فوجی دور میں تحفظ اور سکون محسوس کرتے تھے.... عمران خاں کے بعد اب سیاسی فقدان پورا کرنے کے لیے فوجی قسم کا جمہوری نظام پیچھے بچتا ہے..ورنہ جو عام کے ساتھ خاص کرے گا... انگریز کی غلام سے بھی بد تر ہو گا...
آو مل کر بہتری کی جانب قدم بڑھایں ورنہ رکاوٹیں تو خوامخواہ میسر آ رہی ہیں... ذاتی مفادات کی بجاے اجتماعی سوچ پیدا کی جاے.....اللہ اپنا خاص کرم فرماے آمین..
انسانی نشوونما میں سکول کا کردار
|
(RIAZ HUSSAIN, Chichawatni) |
انسانی نشوونما کو سکول جو اپنا کردار ادا کرتا ہے وہ بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے جب بھی سکول اپنا تدریسی عملہ کا انتخاب کرتاہے تو اپنے اس مائنڈ سیٹ کے مطابق کرتا ہے جو اس نے انسانی نشوونما کے لیے بہترین ثابت ہو۔ سکول کے کردار میں سب سے نمایاں کردارسکول کے سربراہ کا منشور، سوچ اور ویژن سرفہرست ہوتا ہے۔ سربراہ کا رول درخت کے تنے کی مانند ہوتا ہے۔ |
|
|
آؤ دیپ جلائیں بہت اندھیرا ہے
علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔
سکول کا مطلب مدرسہ، مدرسہ وہ جگہ جہاں درس دیا جاتا ہو۔ایسا درس، تعلیم و تربیت دی جانا مقصود ہے جو انسانی زندگی کی نشو ونما کے لیے کارگر ثابت ہو۔۔۔۔جب سے انسانی زندگی معرض وجود میں آئی اس وقت سے بہت تربیتی مراحل سے گزررہی ہے۔ انسانی نشو ونما کے لیے خالق کائنات نے اپنی پیدا کردہ کائنات میں سب سے زیادہ بہتر انسانی کو اشرف المخلوقات کہا ہے۔۔ پھر اس کی تربیت کے اور اصلاح کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر معبوث فرمائے۔ جیسے جیسے وقت نے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ انسانی تربیت کے انداز بھی تبدیل ہو نے لگے۔ انسانی زندگی کی نشوو نما کے لیے رب کریم کا خاص احسان آقائے دو عالم سرور کونین ﷺ کی صورت میں ہے۔ آپﷺ کا اسوہ حسنہ انسانی زندگی کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ یوں یوں نسان نے ترقی کی اس کی تربیت کے لیے مکتب، درس گاہیں معرض میں وجود میں آئیں تاکہ انسان بڑا ہو کر اپنی انسانی زندگی کی تکمیل بہتر سے بہتر انداز میں پا سکے، سکول انسان کو شعور دیتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے سب سے پہلے اپنے اردگر د اپنوں کے ماحول کو پاتا ہے۔ پھر اس کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ زندگی کی مسافت طے کرتے ہوئے پروان چڑھتا ہے، ابھی چار سال کا ہوتا ہے تو اسے درس گاہ، مکتب، سکول میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ماں کی گود کے بعد سکول کاکردار انسانی زندگی پر گہر ا اثر ڈالتا ہے۔ انسانی نشوونما کو سکول جو اپنا کردار ادا کرتا ہے وہ بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے جب بھی سکول اپنا تدریسی عملہ کا انتخاب کرتاہے تو اپنے اس مائنڈ سیٹ کے مطابق کرتا ہے جو اس نے انسانی نشوونما کے لیے بہترین ثابت ہو۔ سکول کے کردار میں سب سے نمایاں کردارسکول کے سربراہ کا منشور، سوچ اور ویژن سرفہرست ہوتا ہے۔ سربراہ کا رول درخت کے تنے کی مانند ہوتا ہے۔ جتنا تنا، مضبوط اور خوبصورت ہوگا اس کی شاخیں (ٹیچرز) اتنی ہی مضبوط اور خوبصورتی پیدا کرنے میں نمایاں کردار اداکریں گی۔ یعنی سکول کا سربراہ اور سٹاف انسانی نشوونما میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔ ماں کی گود کے بعد سکول جس قدر اخلاقی، معاشرتی اور ذہنی تربیت کریں اس کے اتنے ہی اچھے اور دور رس نتائج میسر ہو ں گے۔ انسانی زندگی کی کردار سازی اس کے استاد پر ہوتی ہے۔ اسی لیے استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔ہجرت مدینہ کے بعد مسجد نبوی کا تعمیر ہونا اور صفہ صحابہ کا تعمیر کرنا، سکول کی ابتدائی ہے۔ وہاں پر جلیل القدر صحابہ کرام ؓ تعلیم حاصل کرتے۔ دینی اور دنیاوی معاملات پر تعلیم دی جاتی تھی۔ اس درسگا کی بدولت ہی آج ہم ایک بہترین زندگی گزار رہے ہیں اور زندگی کے مختلف معاملات میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
انسانی زندگی میں سکول کے کردار اگرچند لمحات کے لیے ایک طرف کر دیا جائے تو پھرجو انسانی زندگی میں بگاڑ پیدا ہو گا اس کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔ اگر سکول کا انسانی زندگی کی نشوونما پر کوئی خاطر خواہ اثرات نہ ہوتے تو پھر کبھی بھی سکول، مکتب اور دیگر درس گاہیں وجود میں نہ آتیں۔ بڑے بڑے نامور نام سکول نے ہی پیدا کیئے ہیں۔ سکول بچے کی سوچ اور خیالات کو پالش کرتے ہوئے مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ جو انسانی زندگی کے لیے بے مثال ہوتا ہے۔ملائشیا نے آزادی کے بعدتھنک ٹینک سے مشورہ کیا کہ انسانی زندگی کو مختلف پہلووں میں لانے کے لیے کیا کچھ کرنا ہوگا۔ تھنک ٹینک سے تین مختلف آراء دیں۔ سب سے آخری رائے پر عمل کیا گیا کہ ایمرجنسی لگاتے ہوئے تھوڑے وقت میں بہت زیادہ کام کیا جائے۔ ایمرجنسی سکول بنائے گئے، وسائل اور وقت کی کمی کے باعث ٹینٹ لگا کر سکول بنائے گئے اور سال میں تین سے چار کلاسز تیار کی گئیں۔ کیونکہ قدرت کا نظام ہے کہ انسان کو انسانی زندگی گزار کے لیے تعلیم دینا ضروری ہے جو صرف اور صرف سکول ہی ادا کر سکتا ہے۔ اس طرح ملائشیا نے سترہ سال میں اپنی شرح خواندگی نہ صرف بلند سطح پر لے گئے بلکہ انہوں نے جاپانی ٹیکنالوجی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، آج ملائشیا اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے کیونکہ اس نے سکول کے کردار کو سراہا۔ سکول انسانی زندگی میں جو کردار سازی کرتا ہے اس کا کوئی دوسرا نعم البدل نہیں ہے۔ دنیا کی مہنگی سے مہنگی تعلیم بھی سکول کے مرہون منت ہے۔ یورپ میں پانچ سول سال تک میڈیکل کی تعلیم بھی مسلمان سائنسدانوں کے مرہون منت رہی، جسے بعدمیں ایم بی بی ایس کا نام دیا۔
انسانی زندگی پر سکول کا کردار اس طرح بھی جانچا جا سکتا ہے، زمین و آسمان پر ریسرچ، انسان کا چاند پر قدم رکھنا، ہوا میں اڑنا، انسانی بقاء کے لیے جدید طریقہ علاج، سائنسی علوم پر آئے روز تجربات، زمین سے ہوا اور ہوا سے زمین پر مار کرنے والے آلات، نیوکلیر انرجی، سرجری، انسانی جسم کو پاؤں کے ناخن سے لے کر سر بالوں تک کی تحقیق وغیرہ یہ سب زندہ وجاوید مثالیں موجود ہیں۔ اگر سکول اور درسگاہیں نہ ہوتیں تو آج بھی انسان جنگلی حیوان کی طرح جنگلوں میں ہوتا،جن کی کوئی تہذیب اورپہچان نہیں۔عارفہ کریم، جیسی کم عمر قوم کی بیٹی جس نے مائیکر و سافٹ کی دنیا میں ایک نام پیدا کیا۔ الحمد للہ سکول ہی کا خاصہ ہے۔ راشد منہاس شہید ہو یاسپاہی مقبول حسین ہو، میجر عزیز بھٹی شہید ہویالانسک نائیک محفوظ ہو، کرنل شیر خاں ہویا شبیر سرور شہید ہو، میجر محمد طفیل ہو یا مریم مختیار شہید ہو، ان سب نے ملک پر قربان ہونا کہاں سے سیکھا یہ سب سکول کی بدولت ہی ہے وہاں پر کہنہ مشق اور محب وطن اساتذہ کرام کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے۔ معزز قارئین امید ہے کہ آپ ان چند مثالوں سے انسانی زندگی کی نشو ونما پر سکول کا کردار اور اس کی اہمیت کو سمجھ گئے ہو ں گے۔ میں آپ سے درخواست کروں کہ پلیز اپنے بچوں کو سکول ضرور بھیجیں اگر کوئی اڑوس پڑوس میں اپنے مالی وسائل کی کمی کا سبب بنا کر اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے قاصر ہے تو اس کی معاونت فرمائیں، یہ ہمارا اسلامی اور معاشرتی فرض ہے۔
ہٹلر زمانے کا بدترین قاتل اور جنگجو تاریخی اعتبار سے سامنے آیا ہے، دوران جنگ ان پر پیغام پہنچایا گیا کہ جنگ کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر جنگ جاری رہی تو قوم ختم ہو جائے گی۔ ہٹلر نے جواب دیا ”معلوم کرو اساتذہ بچ گئے ہیں“ جواب ملا جی حضور ابھی ان کی کافی تعداد زندہ ہے۔ ہٹلر نے کہا پھر ان کو کسی محفوظ جگہ پہنچادو۔۔۔ جنگ کے بعد درسگاہیں ہو ں گی تو یہ اساتذہ پھر سے قوم بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ تلوار سے زیادہ قیمتی قلم ہے۔ قلم سے مراد تعلیم، تعلیم اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب سکول معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ اپنے اردگرد، دور دراز علاقوں کاجائزہ لیں جہاں جہاں سکول کم ہے یا نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں تعلیم و تربیت کا فقدا ن بھی موجود ہے۔ وہاں کی شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ انسانی زندگی کو حیوانوں کی طرح گزارنے پر مجبور ہے، کیونکہ وہاں سکول کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔ اگر سکول موجود ہیں تو ان کی پہنچ کوسوں دور ہیں جہاں ان کے بچے یا تو جا نہیں سکتے جا پھر غیر محفوظ ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کے باسی سکول کی اہمیت اور کردار سے اپنی نشو ونما پانے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے حکومت پاکستان وہاں پر سکول تعمیر کرنے اور تعلیم کو ان کے دروازے تک پہنچانے میں سر گرم عمل ہے۔ کیونکہ سکول کے وجود کے بغیر انسانی نشو و نما نا ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس قابل کرے کہ ہم سکول کی اہمیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس سے استفادہ بھی حاصل کر سکیں۔ آمین۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی۔۔۔۔۔۔۔کس نے سکھائے اسماعیل ؓ کو آداب فرزندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|
|
|